top of page

شاہ ہمدان اور بلتستان

سر گریباں میں ڈال کر تھوڑا سا مراقبہ کر لیا۔ دل کی آنکھوں نے دیکھ لیا کہ کو شوق فضا میں پرواز کر رہا ہے۔ آپ نے فوراً نعلین کو ہوا میں اچھالا۔۔جوتیاں سیدھی اوپر چالی گئیں اور کوشوق کے روبرو پہنچ کر یکے بعد دیگرے اس کے رخساروں پر لگنے لگیں۔اور اسے بضد ذلت و خواری نیچے اتر آنے پر مجبور کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد کوشوق دھڑام سے دربار میں گر پرا۔ اور شاہ ہمدان کے قدموں میں گر گیا۔ اسی وقت بادشاہ اور حاضرین دربار مسلمان ہو گٔے۔ اور بادشاہ نے یوں حکم جاری کر دیا۔

کرامات چو دیداز امیر کبیر

مزین با سلام شدند ہر خبیر

بشمشیر لا شد شکستہ بتاں

شہنشاہ ہے کرو حکمش چناں

اگر ہر کہ با شد ز اسلام برون

برو از دیارم بر ہفتہ برون

ڈیڑھ سال تک ترکستان علاقوں میں اسلام کی اشاعت کرنے کے بعد آپ۷۸۵ھ میں پھر وارد بلتستان ہوے۔ اس دفعہ آپ درہ شمال اور ہسر گلشیر کے ذریعے بلتستان کی وادی شگر کے موضع برالدو پہنچے اور شگر میں اسلام کی اشاعت کی ۔ ساحلی کے بیان کے مطابق شگر کے بادشاہ آپ کے پہلے دورے کے دوران اسلام قبول کرنے کی سعادت سے محروم رہ گے تھے۔ اس دفعہ وہ بھی مشرف بہ اسلام ہوے۔ وہاں آپ نے مسجد امبوڑک کی دیوار پر سورہ مزمل اپنے ہاتھ سے نقش فرمایا۔

شگر سے آ پ کریس کے راستے خپلو پہنچے۔ اور خپلو سے چھوربٹ اور وہاں سے زوجی لا کے ذریعے کشمیر پہنچے ۔ اور کشمیر سے حج بیت اللہ کی غرض سے روانہ ہو گئے جب آپ پکھلی کے مقام پر پہنچے توآپؒ کا وصال ہو گیا۔

میر سید علی ہمدانی کی بلتستان آمد اور بلتستان میں آ پ کی سر گرمیاں سپرد قلم کرنے کے بعد اب ہم بلتستان میں آپ کے آثار کا جائزہ لیتے ہیں۔

۔۱۔ دینی وروحانی آثار

بلتستان میں آپ کی سب سے اہم یادگار دین اسلام ہے۔ آپ کی بلتستان آمد سے پہلے بلتستان کے لوگ بدھ مت اور بون چھوس سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی کوششوں سے بلتستانیوں کو اسلام نصیب ہوا۔ آج بلتستان کی آبادی سو فیصد مسلمان ہے۔ یہاں مکمل طور پر مسلمان آبادی آپ کی مخلصانہ جدوجہد اور ان تھک محنت کا نتیجہ ہے۔ اس طرح اس علاقے میں موجود سلسلہ نوربخشیہ آپ کی روحانی یادگار ہے۔ جو آپ کے نامور خلیفہ اور داماد خواجہ اسحاق ختلانی کے شاگرد خاص میر سید محمد نوربخش کی طرف منسوب ہے۔ بلتستان میں نوربخشی مسلمان کی ایک بڑی آبادی موجود ہے۔ جو نماز تہجد کے بعد دعائے صبحیہ، نماز صبح کے بعد اوراد فتحیہ اور نمازعصرکے بععداورادِ عصریہ پڑتے ہیں۔

۔۲علمی آثار

میر سید علی ہمدانیؒ کی دو اہم ترین کتابوں مودۃالقربیٰ اور زخیرۃالملوک کے بارے میں مورخین کا خیال ہے کہ انہیں آپ نے قیام بلتستان کے دوران مکمل کیا۔ اس طرح بلتستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسلام کے موضوع پر لکھی جانےوالی اولین کتابیں میر سید علی ہمدانیؒ کی ہیں۔

آج بلتستان میں آپ کی کتابیں قلمی صورت میں بکثرت مل جاتی ہیں۔ راقم السطور کےذاتی لابریری میں ۴۴ مخطوطات، ۲۹ چھاپ شدہ کتابیں اور ۱۲ کتابوں کی فوٹو سٹیت نقول موجود ہیں۔

۔۳ تاریخی آثار

میر سید علی ہمدانیؒ نیے بلتستان میں تبلغی دورے کے دوران متعدد مقامات پر مسجدوں کی بنیاد رکھی ۔ یہ مساجد بلتستان بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جنہیں مقامی لوگ مسجد حضرت امیر کہتے ہیں۔ اور ان کا بےحد احترام کرتے ہیں۔ یہ مساجد جہاں ہمارے شہر میں اثار قدیمہ ہیں۔ وہاں امیر سید علی ہمدانیؒ کی مقدس یادگار ہیں۔ ان مساجد میں سے جامع مسجد چقچن، مسجد امبورک، مسجد چھہ برونجی اور مسجد پھڑوا مشہور ہیں۔

۔۴ تہزیبی آثار

بلتستان میں میر سید علی ہمدانیؒ نے تہزیب و تمدن کے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔آپکی کوششوں سے تبتیالاصل بدھ مت تہزیب و تمدن حرفِ غلط کی طرح مٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بلتستان سے رخصت ہو گیا۔ اور ان جگہ اسلامی تمدن نے لے لی۔ بلتستانیوں کی بودو باش کے سادہ طریقے،آداب محفل کے انداز، فارسی زبان کی ترویج، مساجد اور خانقاہوں کی طرز تعمیر اور آداب معاشرت کے اصول آپ کی یادگار ہیں۔ اسی طرح بلتستانیوں کی رحم دل ، امن پسندی، اخلاق و مروت اور سادگی جیسے اوصاف میر سید علی ہمدانیؒ اور ان کی ساتھیوں کی صحبت اور ہم نشینی کا اثر ہے۔ یاد رہے کہ آپ نے بلتستان سے کشمیر جاتے ہوئے یہ وصیت کی تھی۔

بہ علم وحیا و صبر و شکور

بجوئید ہمیشہ رضائے غفور

ز ظلم و زنا و کزب دغا

ز انمام و غیبت صبح و مسا

بباید حزربس بباید حزر

خود و دیگران از دخت و پسر

۔۵ لسانی و ادبی آثار

میر سید علی ہمدانیؒ کی بلتستان آمد سے قبل بلتستان میں بلتی زبان کا رواج تھا۔ موجودہ بلتی زبان رسم الحظ میں لکھی جاتی تھی۔ ساہ ہمدان کی بلتستان آمد کے بعد اگر چہ بلتی زبان ختم نہیں ہوئی تا ہم اس کا رسم الحظ متروک ہو کر رہ گیا۔ نشینی رسم الحظ کی جگہ فارسی رسم الحظ نے لے لی۔ بلتستان کی علمی و ادبی زبان فارسی زبان بن گئی۔ سرکاری اندراجات اور شخصی خط و کتابت حصول آزادی یعنی۱۹۴۸ء تک فارسی زبان سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ بلتستان کا موجودہ علمی مزاق اور ادبی رجحان میر سید علی ہمدانیؒ کی کوششوں کے مرہون منت ہیں۔

۶۔ ثقافتی آثار

سید علی ہمدانی ؒ نے میں ایرانی اور کشمیری اعلیٰ ترقی یافتہ ثقافت کو رواج دیا ۔ لوگوں کی بودوباش ، رسوم ،نظریات ،طرز تعمیر ،موسیقی ،لوک روایات،زبان غرض زندگی کے ہر شعبے میں ایرانی اور کشمیری آرٹ اور انداز لو سمو دیا۔ بلتستان کی موجودہ ثقافت کی ہیت کزائی میر سید علی ہمدانیؒ اور ان کے رفقاء کی تشکیل کدہ ہے۔

آثار شاہ ہمدان کے ضمن میں جن باتوں کی میں نے نشاندہی کی ہے وہ میری روز مرہ زندگی کا مشاہدہ ہے۔ میں سمجتھا ہوں کہ ان تمام کو عام کرنے اسلام اور اسلامی اقدار کو بلتیوں کے قلب و نظر میں پختہ کرنے میں اگر چہ میر سید علی کے علاوہ ان کے مریدوں ،رفقائے کار اور بعد میں انے والے ایرانی مبلغین کا بھی ہاتھ ہے اس ضمن میں ہم میر سید محمد نوربخشؒ اور میر شمس الدین عراقی وغیرہ کا نام لے سکتے ہیں لیکن ان سب کا پیشرو ہونے کی حیثیت سے اصل کریڈٹ میرسید علی ہمدانیؒ کو جاتا ہے۔

میں نے یہ عرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ میرسید علی ہمدانیؒ ہی بلتستانی کے اولیں مبلغ اسلام ہیں۔ ان علاقوں میں نور اسلام پھلانے کا سہرا آپ ؒ کے سر ہے۔ بلتستان کے لوگوں کو کفر ضلالت کی تاریکی سے نکال کر نور اسلام کی ضیا پاشیوں میں لانے اور انہیں ایمان وایقان سے بہرہ ور کرنے اور انہیں تہزیب و دین سے مالامال کرنے میں آپ کی خدمات ، ناقابل فراموش ہیں۔ اس سلسلے میں کشمیر کے مسلمان ہی شاہ ہمدانؒ کے زیر بار احسان نہیں۔ ہم بلتستان کے لوگ بھی آپ کے احسان مند ہیں آپ نے ہمیں صرف دین ومذہب کی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ

خطہ را آن شاہ دریا آستین

ۢداد علم و صنعت و تہزیب و دین


Featured Posts
Recent Posts
Search By Tags
No tags yet.
Follow Us
  • Facebook Classic
  • Twitter Classic
  • Google Classic
bottom of page